مسلسل جو سگریٹ ہم پھونکتے ہیں
تری بے وفائی کا غم پھونکتے ہیں
سبھی گوپیاں آنے لگتی ہیں کھنچ کر
کبھی بانسری میں جو ہم پھونکتے ہیں
غم ہجر کی آگ دل میں لگا کر
ترا نام لکھ لکھ کے ہم پھونکتے ہیں
محض چند کاغز کے ٹکڑوں کی خاطر
ضمیر اپنا اہل قلم پھونکتے ہیں
بظاہر ہمیں مذہبی لگنے والے
یہی ہیں جو دیر و حرم پھونکتے ہیں