تمہاری ہم پہ نوازش نہ جانے کب ہوگی
فراقِ یار میں مدت سے جل رہا ہے بدن
یہ سرد ہجر کی آتش نہ جانے کب ہوگی
اداس اداس ہے سوکھی زمین آنکھوں کی
ہمارے حصے کی بارش نہ جانے کب ہوگی
تمام امن پسندوں میں خوف طاری ہے
یہ شر پسندوں کی بندش نہ جانے کب ہوگی
گناہگار ہوں، ہے تیری رحمتوں کی امید
مری خطاؤں کی بخشش نہ جانے کب ہوگی