جینے کی اب ہر ایک تمنا سمٹ گئی
ہونٹوں پہ آکے سانس کی مالا سمٹ گئی
سب کو عبادتوں کا اب آنے لگا خیال
دیر و حرم کی جب سے دری کیا سمٹ گئی
پھیلا ہوا ہے زہر فضاؤں میں اس قدر
پنجرے میں اپنے، خوف سے چڑیا سمٹ گئ
حیرت زدہ ہوں آئنے میں خود کو دیکھ کر
جانے کہاں پہ عمر گذشتہ سمٹ گئی
سویا ہوا تھا نیند میں جاگ اٹھا بادشاہ
جب اس کے سلطنت کی رعایہ سمٹ گئی
قہرِ خدا بشکلِ وباء آ گیا نسیم
اپنے گھروں میں دیکھئے دنیا سمٹ گئی
کاتب ۔ حمیرہ ناز کلام ۔ نسیم اعظمی